کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 178
علماء نے بیان کیا: ’’مَعْنَی الْاِسْتِقَامَۃِ لُزُوْمُ طَاعَۃِ اللّٰہِ تعالیٰ ‘‘[1] (’’استقامت کا معنٰی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے چمٹے رہنا ہے۔‘‘) ۲: آیت ِشریفہ کے متعلق سات مفسرین کے اقوال: ۱: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: اَلْاِسْتِقَامَۃُ) سے مقصود طاعت (پر جمے رہنا) ہے اور (اَلْغَدَقُ) سے مراد بہت زیادہ پاکیزہ پانی ہے۔‘‘ [2] اَلطَّرِیْقَۃُ) (سے مراد) راہِ حق ہے اور (لَأَسْقَیْنَاھُمْ مَآئً غَدَقًا) سے مقصود یہ ہے، کہ ہم انہیں بہت زیادہ مال عطا فرماتے۔ [3] [4] اگر انسان یا جِنّ یا دونوں ہی ملتِ اسلام پر جم جاتے، تو ہم ان کے لیے رزق میں وسعت فرما دیتے۔ (اَلْمَآئُ الْغَدَقُ) (وافر پانی) کا خصوصی طور پر ذکر اس لیے کیا گیا ہے، کیونکہ وہ معیشت کی اساس اور اس کی فراوانی رزق کی کشادگی کی بنیاد ہے۔[5]
[1] ریاض الصالحین، باب في الاستقامۃ، ص ۷۵۔ [2] تفسیر الطبري ۲۹/۷۲۔ [3] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲۹/۷۲۔ یہی بات حضراتِ ائمہ ابن زید، سعید بن جبیر، سعید بن مسیَّب، حسن بصری، قتادہ، سُدِّی اور زَجَّاج نے بیان فرمائی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲۹/۷۲؛ وزاد المسیر ۸/۳۸۱؛ و تفسیر القرآن للإمام عبدالرزاق الجزء الثاني/ص ۳۲۲؛ والبحرالمحیط ۸/۳۴۴)۔ [4] ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۲۹/۷۱۔ [5] ملاحظہ ہو: روح المعاني ۲۹/۹۰۔ نیز دیکھئیے: تفسیر القاسمي ۱۷/۲۱۰۔