کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 171
ہو جاتے ہیں۔) ۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی روایت میں، (اللہ تعالیٰ کے ضامن) ہونے کے دنیوی اور اخروی فوائد و ثمرات خود ہی درجِ ذیل الفاظ کے ساتھ بیان فرمادیئے ہیں: (إِنْ عَاشَ رُزِقَ وَکْفِيَ، وَإِنْ مَّاتَ أَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ) (اگر وہ زندہ رہا، تو اُسے رزق دیا جائے گا اور (غموں اور پریشانیوں) سے کفایت کیا جائے گا اور اگر وہ فوت ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل فرمائیں گے)۔ اللہ اکبر! اللہ تعالیٰ کا ضامن ہونا کس قدر عظیم اور بابرکت ہے! زندگی میں ربِّ رزّاق کی طرف سے رزق کا دیا جانا اور قادر و مقتدر ربِّ کریم کی جانب سے پریشانیوں اور غموں سے کفایت کیا جانا! مزید برآں اخروی زندگی میں جنتوں کے مالک رب العزت کا اُن میں داخل فرمانا! امام ابن حبان نے پہلی روایت پر درجِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے: (ذِکْرُ تَضَمُّنِ اللّٰہِ جَلَّ وَعَلَا دُخُوْلَ الْجَنَّۃِ لِلْمُسَلِّمِ عَلٰٓی أَہْلِہٖ عِنْدَ دُخُوْلِہٖ عَلَیْہِمْ إِنْ مَّاتَ، وَکِفَایَتَہٗ وَرِزْقَہٗٓ إِنْ عَاشَ) [1] (اللہ تعالیٰ کی جانب سے گھر داخل ہوتے وقت اپنے گھر والوں پر سلام کہنے والے کے لیے، فوت ہونے کی صورت میں جنت میں داخلے اور زندہ رہنے کی حالت میں کفایت کیے جانے اور رزق دیئے جانے کی ضمانت کا ذکر)
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان ۲/۲۵۱۔