کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 166
اگر قرض کی رقم صرف ایک لاکھ ہوتی، تو بھی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا چھوڑا ہوا مال اس کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں تھا۔ جب اُنہیں بتلایا گیا، کہ قرض کی رقم بائیس لاکھ ہے، تو اُنہوں نے بے ساختہ فرمایا: ’’میں نہیں سمجھتا، کہ تم اس کے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہو۔‘‘ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’وَالْوَاقِعُ أَنَّہٗ کَانَ دُوْنَ الدُّیُّوْنِ بِکَثِیْرٍ إِلَّآ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بَارَکَ فِیْہِبِأَنْ أَلْقٰی فِيْ قَلْبِ مَنْ أَرَادَ شِرَائَ الْعَقَارِ الَّذِيْ خَلَّفَہٗ، الرَّغْبَۃَ فِيْ شِرَائِہٖ ، حَتّٰی زَادَ عَلٰی قِیْمَتِہٖ أَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً۔‘‘[1] (حقیقت یہ ہے، کہ وہ (یعنی اُن کا ترکہ اُن کے ذمے) قرض کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ کم تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت ڈال دی، کہ اُن کی چھوڑی ہوئی جگہ کے خریدار کے دل میں اس قدر رغبت پیدا فرما دی، کہ اُس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔‘‘) قرض ادا ہوگیا، بلکہ ورثاء کو اتنا زیادہ مال ورثے میں ملا، کہ چار بیویوں میں سے ہر ایک کا حصہ بارہ لاکھ تھا۔ خلاصہ گفتگو یہ ہے، کہ مقروض لوگ قرض کی ادائیگی کا کھرا، سچا ، مضبوط اور پختہ ارادہ کریں، اللہ تعالیٰ اُن کی نصرت و اِعانت فرمائیں گے، اُن کی نگہداشت اور حفاظت کے لیے محافظ مقرر کریں گے اور دنیا ہی میں اُن کا قرض ادا کروادیں گے۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ ۔[2]
[1] فتح الباري ۶/۲۳۵۔ [2] ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کے لیے یہ چنداں مشکل نہیں۔