کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 161
انہوں (عبداللہ رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا: ’’فَوَاللّٰہِ! مَا وَقَعْتُ فِيْ کُرْبَۃٍ مِنْ دَیْنِہٖٓ إِلَّا قُلْتُ: ’’یَا مَوْلَی الزُّبَیْرِ! اِقْضِ عَنْہُ دَیْنَہٗ۔‘‘ (اللہ کی قسم! میں اُن کے قرض کے معاملے میں کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوا، مگر میں نے کہا: ’’اے زبیر۔ رضی اللہ عنہ ۔ کے مولا! اُن کا قرض اُن سے ادا کروادیجیے۔‘‘ فَیَقْضِیْہِ۔ (تو وہ اسے ادا کروادیتے۔) چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) قتل کیے گئے۔ اُنہوں نے (ترکہ میں) دینار و درہم نہ چھوڑے۔ اُن کا ترکہ اراضی (کی صورت میں) تھا، جس میں غابہ[1] کی زمین بھی شامل تھی، گیارہ مکانات مدینہ (طیبہ) میں، دو گھر بصرے میں، ایک گھر کوفے میں اور ایک مصر میں تھا۔‘‘ اُنہوں نے بیان کیا: ’’ اُن کے ذمے قرضے کا پسِ منظر یہ تھا، کہ کوئی شخص اُن کے پاس اپنا مال امانت رکھنے کے لیے آتا، تو زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے: ’’میں (بطورِ امانت) نہیں (رکھوں گا)، لیکن (اس صورت میں رکھ سکتا ہوں، کہ یہ میرے ذمے) قرض ہے، کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: ’’میں نے اُن کے ذمے قرض کی رقم کا حساب کیا، (تو)وہ بائیس لاکھ تھا۔‘‘ عبد اللہ بن زبیر سے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہم ملے، تو دریافت کیا: ’’ اے بھتیجے! میرے بھائی کے ذمے کتنا قرض ہے؟‘‘ انہوں نے (اصل رقم) چھپاتے ہوئے کہا: ’’ایک لاکھ۔‘‘
[1] مدینہ طیبہ کے مضافات میں نہایت قیمتی اور بہت مشہور جگہ۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۶؍۲۳۰ ؛ و عمدۃ القاري ۱۵؍۵۲)۔