کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 16
سبب ہے۔ اس سے زیادہ تعجب اور دکھ کی بات یہ ہے، کہ کچھ بظاہر دین دار لوگ بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں، کہ معاشی خوش حالی اور آسودگی کے حصول کے لیے کسی حد تک اسلامی تعلیمات سے چشم پوشی کرنا ضروری ہے۔
یہ نادان لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا باخبر ہونے کے باوجود، یہ بات فراموش کرچکے ہیں، کہ کائنات کے مالک و خالق اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ دین میں جہاں اُخروی معاملات میں رُشد و ہدایت کارفرما ہے، وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے۔ جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کو سرفراز و سربلند کرنا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ دین اس لیے بھی نازل فرمایا، کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہوکر، دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنہیں اللہ مالک الملک نے ساری انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا، ان کی سب سے زیادہ کی جانے والی دعا میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کا سوال ہوتا۔ امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
کَانَ اَکْثَرُ دُعَآئِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم:
{رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔‘‘ [1]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ دعا:
{رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔
(اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دیجئے اور آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرمائیے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیے۔)
تھی۔‘‘
[1] صحیح البخاري، کتاب الدعوات، باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم: (رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً]، رقم الحدیث ۶۳۸۹، ۱۱/۱۹۱۔