کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 158
(اُس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور محافظ ہوتا ہے۔) اور طبرانی کی روایت میں ہے: ’’کَانَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ عَوْنٌ وَّسَبَّبَ لَہٗ رِزْقًا۔‘‘[1] (اُس کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اعانت ہوتی ہے اور وہ اُس کے لیے رزق کا سبب بنادیتے ہیں۔) ۲: امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسَ یُرِیْدُ أَدَآئَہَا أَدَّی اللّٰہُ عَنْہُ۔‘‘[2] (جو شخص لوگوں کے مال (بطورِ قرض) ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس سے ادا کروادیتے ہیں۔) حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’اس میں (ادائیگی قرض کے لیے) نیت کی درستگی کی ترغیب اور اُس کی خرابی سے ڈرایا گیا ہے۔‘‘[3] ۳: امام ابن ماجہ کی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت کردہ حدیث میں ہے، کہ انہوں نے بیان کیا، کہ: ’’میں نے اپنے نبی اور خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’مَا مِنْ مُّسْلِمٍ یَّدَّانُ دَیْنًا، یَعْلَمُ اللّٰہُ أَ نَّہٗ یُرِیْدُ أَدَآئَہٗ، إِلَّآ أَدَّیٰ عَنْہُ فِيْ الدُّنْیَا۔‘‘[4] (کوئی مسلمان ایسا نہیں، کہ وہ قرض لے اور اللہ تعالیٰ کو اُس کے متعلق معلوم ہو، کہ وہ اُس کی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ دنیا میں اُس
[1] منقول از: الترغیب والترہیب، کتاب البیوع وغیرہا ، الترہیب من الدین…، ۲/۵۹۸؛ ومجمع الزوائد، کتاب البیوع، باب فیمن نویٰ قضٰی دینہ واہتمّ بہ، ۴/۱۳۲۔ شیخ البانی نے اسے (حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۲/۳۴۹)۔ [2] صحیح البخاري، کتاب الاستقراض… ، باب من أخذ أموال الناس یرید أداء ھا أو إتلافہا، جزء من رقم الحدیث ۲۳۸۷، ۵/۵۳۔۵۴۔ [3] فتح الباري ۵/۵۴۔ [4] صحیح بخاری ترجمہ و تشریح مولانا داؤد راز ۳؍ ۴۳۷۔ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۴؍ ۴۷۲۔