کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 153
’’أَنْفِقِيْ، وَلَا تُحْصِيْ، فَیُحْصِي اللّٰہُ عَلَیْکِ، وَلَا تُوْعِيْ، فَیُوْعِي اللّٰہُ عَلَیْکِ۔‘‘ [1] ((اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرو، گِنا نہ کرو، تاکہ تمہیں گِن کے نہ ملے اور جوڑ کے نہ رکھو، تو تم سے بھی اللہ تعالیٰ روک لیں۔) دونوں روایات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اَلْإِیْکَآئُ) اور (اَلْإِحْصَآئُ) سے منع فرمایا ہے۔ (اَلإِیْکَآئُ) برتن کے کنارے کو تسمے سے باندھنا ہے۔ (اَلْإِحْصَآئُ) کا معنی: ماپ کرکے یا گنتی کرکے کسی چیز کی مقدار کو جاننا ہے۔ ان دونوں روایات کا مقصود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو غلّے کے ماپ کرنے سے منع کرنا نہیں، بلکہ ختم ہونے کے خدشے کے سبب، صدقہ نہ کرنے سے روکنا تھا۔ خود حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: ’’وَالْمَعْنٰی النَّہْيُ عَنْ مَّنْعِ الصَّدَقَۃِ خَشْیَۃَ النَّفَادِ۔‘‘[2] (معنٰی (یہ ہے، کہ) ختم ہونے کے خدشے کی بنا پر، صدقہ نہ دینے سے، منع کرنا ہے۔) حضرت حافظ رحمہ اللہ ایک دوسرے مقام پر رقم طراز ہیں: ’’وَالْمَعْنٰی لَا تَجْمَعِيْ فِيْ الْوِعَآئِ، وَتَبْخَلِيْ بِالنَّفَقَۃِ، فَتُجَازٰی بِمِثْلِ ذٰلِکَ۔‘‘[3] (اور معنٰی یہ ہے، کہ برتن میں جوڑ کر نہ رکھو اور خرچ (یعنی صدقہ) کرنے میں بخل نہ کرو، (اگر تم نے ایسے کیا)، تو تمہیں اسی کے مثل بدلہ دیا جائے۔)
[1] المرجع السابق، رقم الحدیث ۲۵۹۱، ۵/۲۱۷۔ [2] فتح الباري ۳/۳۰۰۔ [3] المرجع السابق ۵/۲۱۸۔ نیز ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۱۱/۲۴۷۔