کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 152
(کِیْلُوْا طَعَامَکُمْ) (اپنے اناج کو ماپ لو) کا حکم ہے، لیکن جب اناج کو گھر میں رکھ کر استعمال شروع کیا جائے، تو پھر اس برتن میں باقی ماندہ اناج کا ماپ کرنا برکت کو ختم کردیتا ہے۔ (جیسے کہ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں بیان کیا گیا ہے) [1] حافظ ابن حجر کی رائے میں (غلے کے ماپ لینے) کا حکم لین دین کے وقت ہے، کیونکہ بائع و مشتری کے حقوق اس کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ جہاں تک خرچ کرتے وقت ماپ کرنے کا تعلق ہے، تو بسااوقات یہ بخل پر آمادہ کرتا ہے، اسی لیے خرچ کے لیے غلّہ دیتے وقت ماپنا ناپسندیدہ ہے۔[2] ب: امام بخاری نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: (کہ): ’’میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم -! میرے پاس صرف وہی مال ہے، جو (میرے شوہر) زبیر رضی اللہ عنہ میرے پاس رکھتے ہیں۔ کیا میں (اس میں سے) صدقہ کرسکتی ہوں؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تَصَدَّقِيْ، وَلَا تُوْعِيْ ، فَیُوْعٰی عَلَیْکِ۔‘‘[3] (صدقہ کرو اور جوڑ کے نہ رکھو، کہیں (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) تم سے بھی روک (نہ) لیا جائے۔) اور دوسری روایت میں ہے:
[1] ملاحظہ ہو: فیض الباري ۳/۲۲۱۔ [2] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۱/۲۸۱۔ نیز ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/۳۴۶۔ علامہ طیبی کی بھی یہی رائے ہے۔ (ملاحظہ ہو: شرح الطیبي ۹/۲۸۵۱)۔ نیز دیکھیے: صحیح البخاري مترجم اردو، مولانا محمد داود راز ۷/۷۰۳۔ [3] صحیح البخاري، کتاب الہبۃ، باب ہبۃ المرأۃ لغیر زوجہا، …، رقم الحدیث ۲۵۹۰، ۵/۲۱۷۔