کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 151
(یعنی لوگ) کر رہے ہیں، اس کے متعلق انہیں علم و یقین ہو۔) اسی بارے میں علامہ مناوی نے قلم بند کیا ہے: ’’جہاں تک کنبے کے لیے نکالے جانے والے (اناج) کے ماپ کا تعلق ہے، تو (یہ)اس لیے، کہ اگر وہ اُسے ماپ تول کے بغیر نکالے گا، تو بسااوقات اُن کی حاجت سے کم ہوگا، تو وہ ضرر محسوس کریں یا زیادہ ہوگا، تو وہ معلوم ہی نہ کرپائے گا، کہ سارے سال کے لیے کتنی مقدار ذخیرہ کرلے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماپ تول کا حکم دیا، تاکہ وہ جتنی مدت کے لیے ذخیرہ کرے، اناج اتنی مدت تک موجود رہے۔‘‘[1] ۴:ماپ تول کے متعلق تین احادیث کی بنا پر سوال اور اس پر تبصرہ: استعمال کی خاطر دیے جانے والے اناج کے ماپ تول کرنے کے متعلق تین احادیث کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا ہے۔ وہ تینوں احادیث اور ان پر تبصرہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: (بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے، تو میرے توشہ خانے میں تھوڑے سے جَو کے علاوہ کسی جان دار کے کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ان میں سے ہی کھاتی رہی، یہاں تک کہ مجھ پر ایک طویل وقت گزرا، تو میں نے انہیں ماپا، تو وہ ختم ہوگئے۔)[2] علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی رائے میں خوراک کے لیے غلّہ جمع کرتے وقت
[1] فیض القدیر ۵/۶۰۔ [2] صحیح البخاري، کتاب الرقاق، باب فضل الفقر، رقم الحدیث ۶۴۵۱، ۱۱/۲۷۴۔