کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 149
’’اَلسِّرُّ فِيْ الْکَیْلِ لِأَنَّہٗ یُتَعَرَّفُ بِہٖ مَا یَقُوْتُہٗ وَمَا یَسْتَعِدُّہٗ۔‘‘[1]
(ماپ میں حکمت یہ ہے، کہ اس کی وجہ سے خوراک کے لیے جو (اناج) رکھا اور تیار کیا جاتا ہے، اس کی مقدار معلوم ہوجاتی ہے۔)
۲: لین دین کے وقت ماپ تول کی حکمت:
غلّے کے لین دین کے وقت بائع و مشتری دونوں اس کے ماپ تول کرنے کے پابند ہیں، تاکہ اس کی مقدار مجہول نہ رہے اور عدل و انصاف قائم رہے۔ علامہ مظہر اپنے مذکورہ بالا بیان کے بعد لکھتے ہیں:
’’فإِنَّہٗ لَوْ لَمْ یَکِلْ لَکَانَ مَا یَبِیْعُہٗ وَیَشْتَرِِیْہِ مَجْہُوْلًا، وَلَا یَجُوْزُ ذٰلِکَ۔‘‘[2]
(کیو نکہ اگر اسے ماپا نہ گیا، تو فروخت کردہ اور خرید شدہ چیز مجہول ہوگی اور وہ جائز نہیں۔)
اسی حوالے سے علامہ طیبی رقم طراز ہیں:
’’اَلْکَیْلُ عِنْدَ الْبَیْعِ وَالشِّرَآئِ مَاْمُوْرٌ بِہٖ لِإِقَامَۃِ الْقِسْطِ وَالْعَدْلِ۔‘‘[3]
(عدل و انصاف قائم کرنے کی خاطر، بیع و شراء کے وقت ماپ کرنے کا حکم ہے۔)
علامہ مناوی نے تحریر کیا ہے:
’’أَ مَّا فِيْ الْبَیْعِ وَالشِّرَآئِ فَظَاہِرٌ۔‘‘[4]
[1] عمدۃ القاري ۱۱/۲۴۷۔
[2] منقول از: شرح الطیبي ۹/۲۸۵۰۔ ۲۸۵۱۔
[3] المرجع السابق ۹/۲۸۵۱۔
[4] فیض القدر شرح الجامع الصغیر ۵/۶۰۔