کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 148
روایت نقل کی ہے، (کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کِیْلُوْا طَعَامَکُمْ، یُبَارَکْ لَکُمْ فِیْہِ۔‘‘[1]
(اپنے غلّے کو ماپ لیا کرو، تمہارے لیے اس میں برکت ہوگی۔)
۴: امام ابن النجار نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، انہوں نے فرمایا:
’’کِیْلُوْا طَعَامَکُمْ، فَإِنَّ الْبَرَکَۃَ فِيْ الطَّعَامِ الْمَکِیْلِ۔‘‘[2]
(اپنے غلّے کو ماپ لو، کیونکہ ماپے ہوئے غلّے میں برکت ہے)۔
ب: ان روایات کے حوالے سے سات باتیں:
۱: غلّے کے ماپنے کا مقصود:
اس کا مقصود یہ ہے، کہ اس کی مقدار معلوم ہوجائے۔
علامہ مظہر بیان کرتے ہیں:
’’اَلْغَرَضُ مِنْ کَیْلِ الطَّعَامِ مَعْرِفَۃُ مِقْدَارِ مَا یَسْتَقْرِضُ الرَّجُلُ، وَیَبِیْعُ وَیَشْتَرِيْ۔‘‘[3]
(اناج کے ماپنے کی غرض و غایت یہ ہے، کہ آدمی کے قرض لیے ہوئے، فروخت کردہ اور خرید شدہ غلّے کی مقدار معلوم ہوجائے۔)
علامہ عینی لکھتے ہیں:
[1] سنن ابن ماجہ، أبواب التجارات، رقم الحدیث ۲۲۳۲، ص ۳۷۴۔ شیخ البانی اور شیخ عصام نے اسے (صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابن ماجہ، ۲/۲۱؛ وہامش سنن ابن ماجہ ص ۳۷۴)۔
[2] منقول از: صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ، رقم الحدیث ۴۵۹۹، ۲/۸۴۳۔ شیخ البانی نے اسے (صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۸۴۳)۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، کہ اسے ابن النجار نے اپنی (تاریخ) میں روایت کیا ہے اور القضاعی وغیرہ نے بھی۔ (ملاحظہ ہو: فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ۵/۶۰)۔
[3] بحوالہ: شرح الطیبي ۹/۲۸۵۰۔ نیز دیکھئے: مرقاۃ المفاتیح۸؍۳۲۔