کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 137
روانہ کرتے، تو وہ صاحبِ ثروت بن گئے اور ان کا مال زیادہ ہوگیا۔) ii:دلیل کے حوالے سے پانچ باتیں: ۱: شرحِ حدیث: ملا علی قاری لکھتے ہیں: ’’ (بُکُوْرِہَا) یعنی صبح سویرے اور بہت تڑکے میں نکلنا، طلب ِعلم، رزق کی جستجو اور سفر وغیرہ کے لیے نکلنا(سب) اس میں شامل ہیں۔[1] ۲: اس دعا کی شان و عظمت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے اُن لوگوں کے لیے (برکت عطا فرمانے) کی دعا کی ہے، جو مُنہ اندھیرے اپنے کاموں کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس دعا کی شان و عظمت کے کیا کہنے! دعا کرنے والے اللہ کریم کے حبیب و خلیل، کہ جن کی دعا، ساری مخلوق کی دعاؤں میں سے سب سے زیادہ قبول ہونے والی! فَصَلَواتُ رَبِّیْ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔ اور دعا (البرکۃ) کی، کہ جس سے مراد، (کسی چیز میں خیرِ الٰہی کا دوام اور ثبوت) [2] اور یہ، کہ (اس کے استعمال کی بنا پر آخرت میں کچھ مؤاخذہ نہ ہو۔)[3]
[1] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۷؍۴۵۴۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر البغوي ۲/۱۸۳؛ وتفسیر الخازن ۲/۲۶۶، نیز اس کتاب کا ص ۳۷۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر والتنویر ۹/ ۲۲۔ نیز دیکھئے: اس کتاب کے صفحات ۳۸۔۳۹۔