کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 136
-۸- مُنہ اندھیرے نکلنا رزق کے اسباب میں سے ایک (رزق حاصل کرنے کی جدوجہد میں علی الصبح نکل جانا) ہے۔ اس بارے میں تفصیل درجِ ذیل تین عنوانات کے ضمن میں ملاحظہ فرمایئے: ا: پہلی دلیل اور اس کے حوالے سے پانچ باتیں ب: دوسری دلیل اور اس کے حوالے سے ایک بات ج:تنبیہ ا: پہلی دلیل اور اس کے حوالے سے پانچ باتیں: (i): دلیل: حضراتِ ائمہ ابوداؤد طیالسی، سعید بن منصور، احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور ابن حبان نے حضرت صخرغامدی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے، کہ بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہوئے) کہا: ’’اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِأُمَّتِيْ فِيْ بُکُوْرِہَا۔‘‘ (اے اللہ میری امت کے صبح دم نکلنے میں برکت عطا فرمائیے۔) ’’وَکَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً أَؤْ جَیْشًا بَعَثَہَا مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ۔‘‘ (اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی فوجی دستہ یا لشکر روانہ کرتے، تو اسے بہت تڑکے بھیجا کرتے تھے۔) ’’وَکَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، وَکَانَ یَبْعَثُ تِجَارَتَہٗ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ، فَأَثَریٰ، وَکَثُرَ مَالُہٗ۔‘‘[1] (صخر۔ رضی اللہ عنہ ۔ تاجر آدمی تھے۔ وہ تجارت (یعنی اپنے کارندے) صبح سویرے
[1] مسند أبي داود الطیالسي، رقم الحدیث ۱۳۴۲، ۲/۵۷۴؛ وسنن سعید بن منصور، باب ما جاء في الیوم الذي یستحب فیہ الخروج وأيّ وقت یخرج؟، رقم الحدیث ۲۳۸۲، ۲/۱۴۷؛ والمسند، رقم الحدیث ۱۵۴۳۸، ۲۴/۱۷۱؛ وسنن أبي داود، کتابالجہاد، باب في الابتکار في السفر، رقم الحدیث ۲۶۰۳، ۷/۱۹۰؛ وجامع الترمذي، أبواب البیوع، رقم الحدیث ۱۲۳۰، ۴/۳۳۷۔ ۳۳۸؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب التجارات، رقم الحدیث ۲۲۳۶، ص ۳۷۵؛ وسنن الدارمي، ومن کتاب السیر، رقم الحدیث ۲۴۴۰، ۲/۱۳۴؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب الخروج وکیفیۃ الجہاد، رقم الحدیث ۴۷۵۵، ۱۱/۶۳؛ وشرح السنۃ، کتاب السیر والجہاد، باب الابتکار، رقم الحدیث ۲۶۷۳، ۱۱/۱۹۔۲۰۔ الفاظِ حدیث سنن أبي داود کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے (حسن] قرار دیا ہے۔ حافظ منذری لکھتے ہیں، کہ اسے صحابہ کی ایک جماعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ انہی میں سے علی، ابن عباس، ابن مسعود، ابن عمر، ابوہریرہ، انس بن مالک، عبد اللہ بن سلام، نواس بن سمعان، عمران بن حصین اور جابر بن عبد اللہe ہیں اور ان میں سے بعض کی (سندیں جید] ہیں۔ شیخ البانی اور شیخ ارناؤوط نے اسے (حسن] یا (صحیح لغیرہ] قرار دیا ہے۔ شیخ ارناؤوط لکھتے ہیں، کہ جن صحابہ سے یہ حدیث روایت کی گئی، ان کی تعداد قریباً بیس ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۴/۳۳۸؛ وصحیح الترغیب والترہیب ۲/۳۰۷ و ۳۰۸؛ وہامش شرح السنۃ ۱۱/۲۰)۔