کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 120
میں ساری امت شامل ہے۔ علامہ ابن عطیہ نے لکھا ہے: ’’وَہٰذَا الْخِطَابُ لِلنَّبيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَیَدْخُلُ فِيْ عَمُوْمِہٖ جَمِیْعُ أُمَّتِہٖ۔‘‘[1] (یہ خطاب اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے، (لیکن) اس کے عموم میں تمام امت داخل ہے)۔ ۲: نماز پر مداومت یا جمے رہنے یا خوب پابندی کرنے سے مراد … جیسا کہ علامہ الوسی نے بیان کیا ہے… یہ نہیں، کہ ساری رات اور پورا دن نماز ہی میں رہو، بلکہ مقصود یہ ہے، کہ نمازوں کو ہمیشہ ان کے مقرر شدہ اوقات میں ادا کرو۔[2] ۳: آیتِ کریمہ میں کسبِ معاش کی غرض سے جدوجہد ترک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ علامہ رازی نے تحریر کیا ہے: ’’وَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَیْسَ فِيْ الْآیَۃِ رُخْصَۃٌ فِيْ تَرْکِ التَّکَسُّبِ، لِأَنَّہٗ تَعَالٰی قَالَ فِيْ وَصْفِ الْمُتَّقِیْنَ: {رِجَالٌ لَّا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ}[3]۔‘‘[4] (جان لیجیے، کہ بلاشبہ آیت میں رزق حاصل کرنے کی (خاطر) جدوجہد ترک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (ترجمہ: وہ مرد جنہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ بیع (و شراء))۔
[1] المحرّر الوجیز ۱۱/۱۱۷۔ [2] ملاحظہ ہو: روح المعاني ۱۶/۲۸۵۔ [3] سورۃ النور / جزء من رقم الآیۃ ۳۷۔ [4] التفسیر الکبیر ۲۲/۱۳۷۔