کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 118
(جب (حضرت) بکر بن عبد اللہ مزنی[1] کے گھر والوں کو فاقہ درپیش ہوتا، (تو) فرماتے: ’’اٹھو اور نماز پڑھو۔‘‘ پھر فرماتے: ’’اسی (بات) کا اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔‘‘ اور یہ آیت تلاوت کرتے۔) ۳: آیتِ کریمہ کے متعلق پانچ مفسرین کے اقوال: متعدد مفسرین نے مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں (نماز کے حکم دینے اور اس کی خوب پابندی کرنے) کو رزق کا سبب قرار دیا ہے۔ ذیل میں پانچ مفسرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ۱: حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ’’{لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًا} یَعْنِيْ إِذَآ أَقَمْتَ الصَّلَاۃَ أَ تَاکَ الرِّزْقُ مِنْ حَیْثُ لَا تَحْتَسِبُ۔‘‘[2] ((ہم آپ سے کسی رزق کا سوال نہیں کرتے) یعنی جب آپ نماز قائم کریں گے، تو آپ کے پاس وہاں سے رزق آئے گا، جہاں آپ کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا) ii: شیخ شنقیطی رقم طراز ہیں: ’’وَوَعَدَ بِالرِّزْقِ أَیْضًا مَنْ أَمَرَ أَہْلَہٗ بِالصَّلَاۃِ، وَیَصْطَبِرُ عَلَیْہَا، وَذٰلِکَ فِيْ قَوْلِہٖ: {وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْہَا}۔‘‘[3]
[1] حافظ ذہبی نے ان کا ذکر بایں الفاظ کیا ہے: ’’بَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، الإمَامُ، اَلْقُدْوَۃُ، اَلْوَاعِظُ، اَلْحُجَّۃُ، أَبُوْعَبْدِاللّٰہِ الْمُزَنِيُّ اَلْبَصَرِيُّ، یُذکَرُ مَعَ الْحَسَنَ وَابْنِ سِیْرِیْنِ۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء ۴/۵۳۲)۔ ’’بکر بن عبد اللہ بن عمرو، امام، نمونہ، واعظ، حجت، ابوعبد اللہ مزنی، بصری، ان کا ذکر حسن (بصری) اور ابن سیرین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ (یعنی ان کے ہم پلّہ شمار کیے جاتے ہیں)‘‘ ۱۰۸ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/۵۳۵) ۔ [2] تفسیر ابن کثیر ۳/۱۸۹۔ [3] أضواء البیان ۶/۲۱۷۔