کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 112
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر (اَلسَّعَادَۃُ) (خوش نصیبی) سے (بھی) کی ہے۔ (حضراتِ ائمہ) حسن، مجاہد اور قتادہ نے بیان کیا ہے، کہ (زندگی کی ستھرائی اور پاکیزگی تو صرف جنت ہی میں) ہے۔ (امام) ضحاک نے بیان کیا ہے: ’’وہ (دنیا میں رزقِ حلال اور عبادت (کی توفیق کا میسر آنا)) ہے۔‘‘ (امام) ضحاک نے (یہ بھی) کہا ہے: ’’وہ (اچھے کام کرنا اور ان کے لیے شرحِ صدر (یعنی دلی میلان) کا حاصل ہونا) ہے۔‘‘ (حافظ ابن کثیر کی رائے میں) صحیح بات یہ ہے، کہ (حَیَاۃً طَیِّبَۃً) ان سب باتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے۔[1] {فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً} اور وہ اطمینانِ قلب، سکونِ نفس اور دل کو تشویش میں ڈالنے والی چیزوں سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکیزہ حلال رزق کا ایسی جگہ سے دیا جانا ہے، جہاں اُس کا وہم و گمان بھی نہ ہو۔[2] ’’پاک زندگی میں حلال روزی، قناعت، سچی عزت، سکون و اطمینان، دل کی تونگری، اللہ تعالیٰ کی محبت اور لذت سبھی چیزیں شامل ہیں۔ مطلب یہ کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں، بلکہ دنیوی زندگی بھی
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲/۶۴۵۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرآن للإمام عبد الرزاق، الجزء الأول، القسم الثاني؍۳۶۰؛ وتفسیر الطبري ۱۴/۱۱۴۔ ۱۱۵، (ط: دار المعرفۃ بیروت) ، والکشاف ۲/۴۲۷؛ وتفسیر البغوي ۳/۸۳۔ ۸۴؛ وزاد المسیر ۴/۴۸۸۔۴۸۹؛ وتفسیر القرطبي ۱۰/۱۷۴؛ وتفسیر الخازن ۴/۱۱۳؛ والبحر المحیط ۵/۵۱۶۔ ۵۱۷ ؛ وأضواء البیان ۳/۳۵۳۔ ۳۵۶؛ وزبدۃ التفسیر للدکتور الأشقر ص ۲۷۸۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر السعدي ص ۴۴۹۔