کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 102
ان کے لیے اپنی برکات کو اُگلتی۔[1] وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: وہ اپنے قدموں تلے زمین کی برکات سے اُن چیزوں کو کھاتے، جو زمین اپنے غلّے، نباتات، پھلوں اور دیگر کھانے والی چیزوں سے نکالتی ہے۔[2] ’’اگر اہلِ کتاب تورات، انجیل اور قرآن کریم میں نازل کردہ احکام کی تعمیل کرتے، تو وہ اُوپر نیچے سے کھاتے، یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اُن کے حوالے کردیتے۔‘‘[3] ’’اُن کے لیے اسبابِ رزق میں میسّر آنے والی آسانی، اُن کی کثرت اور اُن کے انواع و اقسام کی بہتات میں مبالغہ بیان کرنے کی غرض سے (فوق) اور (تحت) ذکر کیے گئے۔‘‘[4] رزق کے حاصل ہونے کی راہوں کے عموم کی خاطر (لَاَکَلُوْا مِنْ
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۶/۱۹۷۔ نیز ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۲/۳۹۵؛ وتفسیر ابن کثیر ۲/۸۶۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: یہی بات مجاہد، سعید بن جبیر، قتادہ اور سُدِّی نے کہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۸۶)۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۱۰/۴۶۳۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲/۸۶؛ وأضواء البیان ۲/۱۱۵۔ [3] ملاحظہ ہو: کتاب النظر والأحکام فی جمیع أہل السوق، ص ۴۱۔ [4] فتح القدیر ۲/۸۵۔ حافظ ابن جوزی نے آیت شریفہ کے دو معانی بیان کرتے ہوئے دوسرا معنٰی یہ بیان کیا ہے: ’’ان پر رزق کی وسعت فرمادیتے، جیسے کہ کہا جاتا ہے: ’’فُـلَانٌ فِيْ خَیْرٍ مِنْ قَرْنِہٖ إِلٰی قَدَمِہٖ۔‘‘ (فلان سر سے قدم تک خیر میں ہے۔] یہ بات (امام) فراء اور (امام) زجاج نے بیان کی ہے۔‘‘ ( زاد المسیر ۲/۳۹۵)۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۶/۲۴۱۔