کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 86
اور اس میں قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ کے مطابق کمی بیشی ہو سکتی ہے ،ایمان ،اسلام اور احسان میں وہی فرق ہے جس کی تفصیل حدیث جبریل علیہ السلام میں ذکر ہوئی ہے یہ کہنا کہ میں یقیناً ایمان دار ہوں یا ان شاء اللہ میں مومن ہوں درست ہے،اس میں نزاع کرنا صرف نزاع لفظی ہے ۔زندگی میں مایوسی کے وقت اور)عذاب الٰہی کو دیکھ کر ایمان لانا غیر مقبول ہے(۸۰) ....................................................................... (۸۰)صحیح بات یہی ہے کہ غرغرے کے وقت ایمان فائدہ نہیں دے گا اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ﴾(المومن:۸۵) ’’پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا ،جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تھا ۔یہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔‘‘ یاد رہے کہ یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے سے مستثنی کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ﴾(یونس:۹۸) ’’یونس علیہ السلام کی قوم کے سوا جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور انھیں ایک وقت تک فائدہ دیا ۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم یونس عذاب دیکھ کر ایمان لائی تھی اللہ تعالیٰ نے اسی حالت میں ان کے ایمان لانے کو قبول کرلیا ۔یہی راجح تفسیر ہے ۔لیکن فرعون نے پانی میں غرق ہوتے وقت کہا تھا :ارشاد باری تعالیٰ ہے :