کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 78
’’حالانکہ اللہ نے ہی تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔‘‘
سے یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ خلق کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور عمل کو بندوں کی طرف منسوب کیا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فعل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کسب بندے کی طرف سے تو یہ بات عقل میں نہیں سماتی ہے اور قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ چیزوں کی حقیقت ثابت ہے اور ان کا علم یقیناً حاصل ہے انکار کرنے والا سو فسطا ئی ہے۔ مخلوق کے لئے حصول علم کے تین ذرائع ہیں«
۱:حواس سلیمہ ۲:خبر صادق ۳:عقل
بداہتہً عقل سے ثابت ہونے والاعلم ضروری ہے اور استدلال اور مقدمات کو ترتیب دینے سے حاصل ہونے والااکتسابی ہے ،الہام کسی چیز کی صحت معلوم کرنے کا سبب نہیں ہے دنیا موجود ہونے کے بعد ضرور فنا ہونے والی ہے:
﴿ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ﴾ (القصص:۸۸)
’’ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے چہرے کے۔‘‘
ہر شخص اپنی موت مرتا ہے:
مقتول اپنی ہی موت سے فوت ہوتا ہے اور موت ایک ہی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآئَ اَجَلُھَا﴾ (المنافقون: ۱۳)
’’اور اللہ کسی جان کو ہر گز نہ مہلت دے گاجب اس کا وقت آگیا۔‘‘
کئی آیات کریمات میں یہی ارشاد ہوا ہے۔لوگ حلال و حرام سے جو کچھ بھی کھاتے ہیں ،رزق ہے اور ہر شخص اپنا رزق پورا کرلیتا ہے،کوئی آدمی دوسرے کا رزق نہیں کھاتا :