کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 77
خلق السموات والارض وکتب فی الذکر کل شیء)) [1] اس پر شاہد ہے۔ وہ ہر روز کسی نہ کسی کام میں لگا رہتا ہے اس کی ساختِ کمال میں بے کاری کی گنجائش نہیں ۔ بندے کی خود مختاری: انسان اپنے اعمال میں خود مختار ہے اور اسی کے سبب انھیں ثواب ملتا اور عذاب ہو تا ہے۔ نیک اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور محبت سے ہوتے ہیں اور بد اعمال اس کی رضا اور محبت سے نہیں ہیں یااس کے ارادہ سے ضرور ہوتے ہیں ۔ نیکیوں پر ثواب اور گناہوں پر عذاب دینا اس کا عدل ہے ۔ اور یہ اس پر کسی کی طرف سے واجب نہیں ہے خود اپنے آپ پر واجب کر لے تو اس کی مرضی: ﴿اِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ﴾ (الانعام:۲۸) ’’یقیناًاللہ نے اپنے نفس پر رحمت کو لکھ لیا ہے‘‘ چنانچہ متعدد آیات و احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں ۔ تکلیف کا اعتبار عقل ، تمییز اور بلوغ پر ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ استطاعت فعل کے ساتھ ہے تو گزارش یہ ہے کہ یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ بندے کو اس چیز سے تکلیف نہیں دی جاتی جو چیز اس کی وسعت اور طاقت میں نہ ہو۔ بندوں کے افعال اللہ کی مخلوق ہیں : بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور فاعل خود انسان ہے۔ قرآن مجید کی آیت کریمہ: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْملُونَ﴾ (الصافات:۹۶۔)
[1] مستدرک حاکم : (۲/۳۷۲،امام حاکم اور حافظ ذھبی اس کو صحیح کہا ہے)