کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 76
اور جنب(۷۱) کا اطلاق بھی آیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی صفات میں متکلمین کا یہ قول کہ وہ جو ہر ،عرض،محدود،معدود،متبعض اور متحیز نہیں ہے اور نہ ہی کسی مکان میں ہے،بدعت ہے ،ہاں اس کے لیے آٹھ صفات ثابت ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ پس جن صفات کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن و حدیث میں آیا ہے ان پر بلا چو ن و چرا اور بلا تاویل ایمان لانا فرض ہے ،اس کے لیے ضد ،ند ،شبیہ اور نظیر نہیں ہے ،معاون و مدد گار سے پاک ہے۔ غیر کے ساتھ کبھی متحد نہیں ہوتا ،وحدت الوجود باطل ہے اور استوی علی العرش کا مسئلہ وجودیوں کے مذہب کی تردید کے لیے برہان قاطع ہے ۔ دنیا حادث ہے: دنیا اور اس کے تمام اجزاء حادث ہیں جوموجود ہونے سے پہلے اپنا وجود نہیں رکھتے تھے۔ اس کا ہرہر فرد اللہ تعالیٰ کے اختیار سے عدم سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے اور اس کے علم و قدرت سے ہی خلعتِ وجود حاصل کی ہے۔ کسی چیز کے لیے اپنی مقرر حد سے تجاوز کرنا ممکن نہیں ۔چنانچہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث : ((کان اللّٰہ ولم یکن شیء قبلہ و کان عرشہ علی الماء ثم ............................................................................................. ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔‘‘ (۷۱) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَاحَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ ﴾ ’’(ایسا نہ ہو) کہ کوئی شخص کہے ہاے افسوس ! اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کی جناب میں کی ہے ۔ ‘‘ (الزمر : ۵۶) (از ابو یاسر عبد اللہ بشیر)