کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 65
عین ہیں یا اس سے کوئی شے زائد ہیں ،ہاں اس قدر موجود ہے کہ وہ جملہ صفات کمال سے متصف اور تمام اوصاف جمال و جلال کا حامل ہے۔ صفات کی نفی کرنے والے کے حق میں بڑا خطرہ ہے جو لوگ صفات کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا عین کہتے ہیں جو نہ عین نہ غیر کہتے ہیں اور جو صفات کو ذات پر زائد اعتبار کرتے ہیں یہ سب لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جن کے وہ مکلف نہیں ہیں اور اعتقادات میں وہ چیزیں داخل کر رہے ہیں جو ہرگز عقائد میں داخل نہیں ہیں ۔
عفا اللّٰہ تعالیٰ عنا و عنھم۔
......................................................................................................
۱:ذاتی ۔ایسی صفات جو اللہ تعالیٰ کی صفات سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتیں اور نہ ان میں کوئی کمی یا نقص واقع ہوتا ہے جیسے نفس ،وجہ اور کلام وغیرہ۔
۲:فعلی۔اس سے مراد وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور قدرت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ ویسا کرنے پر قادرہے مثلاً نزول ،ضحک وغیرہ
صفات باری تعاری کے متعلق محدث الحرم امام عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ مخلوق کی صفات کے مماثل ہیں بلکہ وہ اس کی ذات کی
مانند بے مثل اور غیر مشابہ ہیں ۔وہ کمال کی جملہ صفات سے متصف ہے اور نقص کی تمام صفات سے پاک ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے وجہ،اصابع،یدین،رجل ،عینین،قبض،ساق وغیرہ کا اطلاق ثابت ہے ۔میں ان صفات کو کسی کیفیت اور تمثیل کے بغیر تسلیم کرتا ہوں ۔ ان کے معانی میں تحریف و تاویل اور تعطیل کو درست نہیں سمجھتا ۔احادیث میں مذکور ہے :وہ قریب ہوتا ہے وہ تمہارے ساتھ ہے ،یہ اس کے عالی ہونے اور سب سے اوپر ہونے کے منافی نہیں ہے کہ اس سے علم اور نگرانی مراد ہے ۔یہ یقین کیا جائے کہ اس نے حقیقتا کلام کیا ہیْ۔ اس کا حجاب نور ہے ،آنکھیں اس کا ادراک