کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 57
مشہور ہے اور تقریبا حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ یہ مسئلہ کہاں تک بیان کیا جائے؟ اس مسئلے میں اس قدر احادیث آئی ہیں کہ اس مختصر رسالے میں ان کا شمار کرنا بہت مشکل ہے۔ تفصیل مطولات میں ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کی بہت بڑی مقدار کتاب العلو امام ذھبی،کتاب النزول و کتاب العرش امام ابن تیمیہ(۲۴) ،اور ان کے تلامذہ کی کتابوں میں آگئی ہے ،صحابہ کرام ،ائمہ مجتہدین اور ان کے شاگردوں کے اقوال اس بارے میں ان گنت اور بے شمار ثابت ہیں مگر آیات قرآن واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر ایمان لانے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اس عقیدے سے سرمو انحراف نہ کریں بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے رنگ میں رنگ جائیں اور متاخرین اور دوسرے لوگوں کے اقوال و آراء کی طرف توجہ نہ کریں ۔(۲۵)
.............................................................................................................................
(۲۴)یہ کتب مطبوع ہیں اور عام متداول ہیں ۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب اس مسئلے پر لکھی گئی ہیں ۔
(۲۵)میں (امام نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ) کہتا ہوں : استوا کے مسئلے پر میری اردو کتاب (( الاحتواء علی مسئلۃ الاستواء)) اور عربی کتاب ((الانتقاد الرجیح بشرح الاعتقاد الصحیح)) میں کتاب وسنت کی روشنی میں اچھی خاصی بحث مذکور ہے ، بہت سے دلائل اور ائمہ سلف کے ساتھ مرقوم ہے۔
صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین اور تلامذہ ائمہ کے اقوال اس کے بارے میں بڑی کثرت سے مروی ہیں ۔ امام محمد بن حسن عطاس رحمہ اللہ کی تالیف (( تنزیۃ الذات والصفات من درن الأِلحاد والشھبات))میں کسی قدر وہ اقوال منقول ہیں ، لیکن آیت و احادیث ان اقوال سے مستغنی اور بے پروا کردیتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے:
((الصباح یغنی المصباح))