کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 53
کا مذہب ہے (۲۲) اور اس مماثلت کی دونوں صورتیں ناپید ہیں اور اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف متغیر ہونا بھی جو حدوث کی علامت ہے لازم نہیں آتا کیونکہ جس طرح دنیا کو ایجاد کرنے اور اس کا موجد کہلانے سے اس کے لیے تغیر نہیں ہوا ٹھیک اسی طرح عرش کو پیدا کرنے اور اس پرمستوی ہونے سے بھی کوئی تغیر نہیں ہوتا ۔(۲۳) احادیث میں استوا کا ثبوت: جس طرح قرآن میں وارد ہونے والی اللہ تعالیٰ کی ہر صفت پر ایمان لانا ........................................................................................ اس قدر عروج تھا کہ اچھے بھلے لوگ بھی ان کا عروج دیکھ کر معتزلہ کی حمایت کرنے لگے اور ان کو سچ سمجھنے لگے۔[1] (۲۲)ابن ابی العز الحنفی لکھتے ہیں کہ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ تمام لوگ عادتا جب دعا مانگتے ہیں تو اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ نہایت بے تابی کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے بلندی کی جہت کا قصد کرتے ہیں جس سے مراد ان کی اللہ کی ذات ہو تی ہے۔[2] ابن ابی العز الحنفی نے بعض باطل تاویلوں کا خوبصورت جواب دیا ہے۔[3] (۲۳)محمد بن مصعب نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے ،اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی طرح نہیں جو الحادی اور زندیق ہیں ۔[4]
[1] المعتزلہ و اصولھم الخمسۃ (ص:۳۰۔۵۰)،المشابھۃ بین المعتزلۃ الاوائل والمعتزلہ الجدد(ص:۵۔۶) [2] شرح عقیدہ طحاویہ (ص:۲۸۰ )ط:المکتب الاسلامی بیروت [3] دیکھئے :شرح عقیدہ طحاویہ (ص:۳۷۹۔۳۸۲ [4] کتاب الصفات للدارقطنی( رقم:۶۴)۔