کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 52
یا اخص اوصاف میں جس طرح معتزلہ(۲۱)
...................................................................................................
اللہ تعا لی عرش کے اوپر ہے مخلوق سے جدا ہے جیسے اس نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر بغیر کیفیت کے بیان کیا ہے ،وہ ہم سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔[1]
(۲)معتزلہ کاتعارف:ان کی وجہ تسمیہ یہ ہے ایک آدمی امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب مومن ہے یا کافر ؟اسی دوران مجلس سے ایک آدمی جس کا نام واصل بن عطاء تھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ وہ نہ مطلق کافر ہے اور نہ مطلق مومن۔۔۔یہ بات کہہ کر ایک ستون کی طرف کھڑا ہوا ۔یہ منظر دیکھ کر امام حسن بصری نے کہا :
اعتزلنا واصل
واصل ہم سے جدا ہو گیا ،اسی سے اس فرقے کا نام معتزلی پڑ گیا ۔[2]
پھر اس کے ساتھ عمرو بن عبیدمل گیا ،اس باطل فرقے کے پھیلنے کی چند وجوہات تھیں ۔
۱:بنو عباس کے بعض حکمرانوں نے معتزلیوں کی تائید کی ،مامون ،واثق اور واصل کے دور میں معتزلی کو پھلنے اور پھولنے کا خوب موقع ملا ۔انھوں نے اپنا باطل مذھب کی خوب ترویج کی اور اسی دور میں مسئلہ خلق قرآن بھی معرض وجود میں آیا جس میں خلق کثیر متاثرہوئی اور مرد مجاہد امام اہل السنہ والجماعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے ۔ اس دور میں گویا وہ حکومتی مذھب بن گیا ۔
۲:ا سلف ،خوارج ،مرجئہ اور معتزلہ کے درمیان مرتکب کبیرہ میں شدید اختلاف ہو۔
۳:مامون نے قدیم یونانی فلسفہ کی کتب کے ترجمے کروائے۔ اس دور میں معتزلہ کو
[1] اصل السنۃ (رقم:۷)،نیز دیکھیں اعتقاد اہل السنۃ لاسماعیلی( رقم:۲۳)،لمعۃ الاعتقاد( رقم:۱۵)
[2] الملل والنحل : (۱/۵۲)