کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 48
نہیں ہے اور اس کے اور اللہ تعالیٰ کی صفت علم کے مابین بجز فرق اعتباری کے تمیز کرنا مشکل ہے (۱۷)
استواء کا بیان:
اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش بریں پر بلند ہے عرش اور اس کے نیچے کی جملہ کائنات کو اللہ تعالیٰ سے وہی نسبت ہے جو رائی کے دانے کو ایک انسان
...........................................................................................
’’جان لو کہ اشاعرہ کا منہج اہل السنہ کے منہج کے الٹ ہے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھنے والا اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے ۔بصیرت کے اندھوں پر تعجب ہے کہ وہ مقلد کو صاحبِ دلیل قرار دیتے ہیں اور وہ بلا غور وفکر اور بلا دلیل ،مقلد کو تقلید کی وجہ سے دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ دونوں وحیوں (قرآن وحدیث )سے بالکل اندھے ہیں ،کیونکہ وہ ان کا معنی سمجھنے سے قاصر ہیں ،اس طرح کے ہدایت سے محروم انسان پر تعجب ہے ۔‘‘[1]
نوٹ:اشاعرہ اور جہمیہ کی تاویلات باطلہ تقریبا ایک ہی طرح کی ہیں۔‘‘[2]
امام دارمی رحمہ اللہ نے ان کی باطل تاویلوں کے رد پر ایک زبر دست کتاب((رد عثمان بن سعید علی الکاذب العنید فیما افتری علی اللّٰہ فی التوحید)) لکھی ہے
اشاعرہ کے رد پر درج ذیل کتب سے بھی رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
ام البراہین ،منھج الاشاعرہ فی العقیدہ ،الرد علی الاشاعرہ والمعتزلہ،نیز دیکھیں ہمارا رسالہ الفرق بین السلفیین والاشاعرہ فی صفات الرحمن بینھما برزخ لا یبغیان
(۱۷)اللہ تعالیٰ کی صفت کلام پر ماقبل صفحات میں تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔
[1] قصیدہ نونیہ (ص:۳۱۲)
[2] الفتاوی الحمویہ الکبری (ص:۲۵۴۔۲۶۰)