کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 47
کا اشاعرہ (۱۶)کی کتابوں میں تذکرہ ہے ،قرآن و حدیث میں ا س کی بو تک موجود ...................................................................................... کہا ہے کہ اس مسئلہ میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا سوائے اشاعرہ کے ۔[1] (۱۶)اشاعرہ کا تعارف کرواتے ہوئے امام نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں :اس گروہ کے لوگ امام ابوالحسن اشعری کی طرف منسوب ہیں جو دس واسطوں سے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ صحابی رسول کے فرزندہیں ۔خراسان اور عراق وغیرہ میں انھیں کے عقائد کا رواج ہے۔[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اشعریہ کا عقیدہ صفات باری تعالیٰ کے بارہ میں مذہب تعطیل کو مستلزم ہے ،جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ عالم کے اندر ہے اور نہ باہر ۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پورے کلام کا ایک ہی معنی ہے جس کی رو سے آیۃ الکرسی اور آیۃ الدین(وہ آیت جس میں قرض کے مسائل بیان ہوئے ہیں ) اور توراۃ و انجیل سب کا ایک ہی معنی ہے ۔یہ عقیدہ باطل ہے۔‘‘[3] نیز لکھتے ہیں : ’’اشعریہ سے مراد وہ فرقہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات خبریہ کی نفی کرتے ہیں ،البتہ اشاعرہ میں سے وہ لوگ جو کتاب الدیانۃ جو کہ ابوالحسن اشعری کی آخرعمر کی تالیف ہے جس کے مخالف یا مناقض ان کا کوئی مقالہ منظر عام پر نہیں آیا ،کی بات کرتے ہیں ،ان کایقینی طور پر اہل السنہ میں شمار ہوگا ۔‘‘ [4] شیخ الاسلام ثانی حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
[1] الرد علی من انکرالحرف والصوت (ص:۸۹)؛مجموع الفتاوی : (۶/۵۲۸) [2] مجموعۂ رسائل عقیدہ : (۳/۱۲۸) [3] مجموع الفتاوی: ( ۶/۳۱۰) [4] مجموع الفتاوی : ( ۶/۳۵۹)