کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 46
کیا کلام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ گلے اور زبان کا محتاج ہے؟ کلام کرنے کے طریقے کو اسی طریقے میں جو حیوانات میں جاری ہے منحصر سمجھنا درست نہیں ہے۔ اس خیال محال نے بہت سے لوگوں کو تاویل پر مجبور کیا ہے اورساحل نجات سے دور لے جاکر گرداب اضطراب میں غرق کر دیا ہے ،صحیح اور درست بات یہ ہے کہ جو کچھ کتاب و سنت میں آیا ہے بے چون و چرا اس پر ایمان لایا جائے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں کنکروں ،پتھروں اور درختوں کے کلام کرنے اور تسبیح پڑھنے میں تکلم کا معروف طریقہ استعمال نہیں کیا گیا تو اگر اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے ،اس معروف طریقے سے بے نیاز ہو کر کلام کرے تو اس میں کون سا استحالہ لازم آتا ہے اور جس کلام نفسی (۱۵) ............................................................................................................... اور کچھ بھی اللہ سے مخلوق نہیں۔[1] امام ابن ابی حاتم نے کہا : ’’ ہر لحاظ سے قرآن اللہ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے ۔‘‘[2] (۱)اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نفس میں کلام کی ہے ۔۔یہ غلط نظریہ ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں سے کلام کیا ۔اور اللہ اپنی مشیئت کے مطابق کلام کرتا ہے ۔ امام ابونصر سجزی نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ سلف صالحین میں کلام کے حرف اور صوت پر مشتمل ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں تھاسب سے پہلے اس مسئلے میں اختلاف ابن کلاب اور ان کے کچھ پیرو کاروں نے کیا۔اور امام ابن تیمیہ نے بھی
[1] شرح اصول الاعتقاد : (۲/۲۱۹)،السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل، (۲/۱۸)،صریح السنۃ للطبری : (۲۶)،الشریعہ للآجری (ص: ۷۵)،کتاب الاعتقاد للقاضی ابی یعلی (ص:۲۴۔۲۵) [2] اصل السنۃ ،(رقم:۲)