کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 45
جبرئیل علیہ السلام صرف ناقل ہیں ۔(۱۳) اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مبلغ ہیں ،اس مقدس کلام کا جو حرف یا جو جملہ مخلوق کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ اللہ کا کلام ہے جو فی الواقع جبرائیل نے سنا ہے اور بالیقین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے۔ جو شخص اسے فرشتے یا کسی انسان کا کلام کہے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اپنے کلام کرنے کا طریقہ اللہ ہی جانتا ہے اور اس کی کیفیت اسی کے علم کے سپرد ہے۔ تعالیٰ اللّٰہ ان یکون شبیھا بمخلوقاتہ فی شیء من ذاتہ و صفاتہ ۔یعنی :اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات و صفات میں مخلوقات کے مشابہ ہونا محال ہے۔(۱۴)
.....................................................................................................
’’اور ہم اتارتے ہیں قرآن جو شفاہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کافرمان عالی شان ہے :
﴿ لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ ﴾ ۔۔۔(الحشر:۲)
’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑپر نازل کر دیتے ۔۔۔‘‘
(۱۳)اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ ﴾۔(النحل:۱۰۲)
’’کہہ دیجئے اس کو روح القدس (جبرئیل علیہ السلام )نے تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے‘‘
(۱۴)ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴾ ۔(الشوری:۱۱)
امام وکیع بن جراح نے کہا :
’’جس نے دعوی کیا کہ قرآن مخلوق ہے گویا اس نے دعوی کیا کہ اللہ کا کچھ حصہ بھی مخلوق ہے ،ان سے پوچھا گیا کیسے ؟تو انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا:
﴿ وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي﴾۔(السجدہ :۱۳)
’’اور لیکن بات میری طرف سے ثابت ہو چکی ہے ۔‘‘