کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 43
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ...................................................................................... ’’تم میں سے ہر ایک کے ساتھ تمہارا رب کلام کرے گا (روز قیامت)اس کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا‘‘ کلام کی کیفیت کے متعلق ہم وہی کہیں گے جو سلف نے کہا :کما یلیق بشانہ ،اللہ تعالیٰ اسی طرح کلام کرتا ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔کلام میں صوت و حرف کا وجود تسلیم کیا جائے گا ۔تفصیل کے لئے ((خلق افعال العباد ))لامام البخاری ،لمعۃ الاعتقاد (ص:۲۲کا مطالعہ کریں نیز امام سجزی (۴۴۴ھ)نے اس مسئلہ پر دو مستقل کتابیں ((رسالۃ السجزی الی اہل زبید فی الرد علی من انکر الحرف والصوت )) اور((الابانہ فی مسئلۃ القرآن ))لکھیں ،امام ابن قدامہ نے (الصراط المستقیم فی اثبات الحرف القدیم )لکھی ۔ امام بربہاری کہتے ہیں : ’’ قرآن اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا کلام اور اس کا نور ہے وہ مخلوق نہیں ہے اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے اور اللہ سے ہے وہ مخلوق نہیں ہے۔ یہی بات امام مالک بن انس ،امام احمد بن حنبل اور ان سے پہلے اور بعد کے فقہاء نے کی ہے۔ اس میں بحث کرنا کفر ہے ۔‘‘[1] امام مالک نے کہا: ’’قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔‘‘[2] امام احمد سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی کہے کہ قرآن مخلوق ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ کافر ہے ۔[3]
[1] شرح السنۃ رقم:۱۶) [2] شرح اصول الاعتقاد رقم:۴۱۴) [3] شرح اصول رقم:۴۴۹) نیز دیکھیں ( شرح عقیدہ طحاویہ :۱۶۸۔۱۸۸،التبصیر فی معالم الدین للطبری:۱۹۹،التوحید لابن خزیمہ (ص:۱۳۶۔۱۶۵،الاسماء والصفات للبیھقی (ص:۹۹۔۲۳۳)الاعتقاد للبیھقی:۲۰۹۴،الشریعہ للآجری (ص:۷۵۔۹۶،الرد علی الجھمیہ (ص:۱۳۲۔۱۷۰،