کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 42
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
.......................................................................................................................
مثلاً (الاعراف:۱۴۳،طہ:۱۱۔۱۳)بلکہ (طہ)میں ہے:
﴿ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَامُوسَى﴾۔ (طہ:۱۱ )
’’پس جب موسی علیہ السلام وادی طوی میں آئے تو پکارا گیا اے موسی۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یقول اللّٰہ تعالیٰ :یا آدم فیقول :لبیک و سعدیک ،فینادی بصوت :ان اللّٰہ یا مرک ان تخرج من ذریتک بعثا الی النار ))
’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا :اے آدم!وہ کہیں گے لبیک و سعدیک ،پھر وہ آواز کے ساتھ پکارے گا اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر نکال ۔‘‘[1]
پکار حرف اور صوت کے ساتھ ہوتی ہے ورنہ پکارنا ممکن ہی نہیں ۔[2]
اللہ تعالیٰ نے (النحل :۱۰۳) میں مشرکین مکہ کے جواب میں قرآن مجید کے متعلق فرمایا :﴿ لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ﴾ ۔یہ واضح عربی زبان ہے ۔اور زبان حرف اور صوت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔[3]
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ تم آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو۔(البقرہ:۳۴)اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ روز قیامت اپنے بندوں سے بھی کلام کریں گے (القصص:۶۲)بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ما منکم من احد الا سیکلمہ ربہ، ولیس بینہ و بینہ ترجمان)) [4]
[1] صحیح بخاری: (۷۴۸۳،صحیح مسلم: (۲۲۲) ۔
[2] مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: (۱۲/۳۰)
[3] مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: (۱۲/۱۲۳)
[4] صحیح بخاری:(۶۵۳۹)،صحیح مسلم: (۱۰۱۶)