کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 41
اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام کا بیان: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے لئے حرف اورآواز نہیں ہے۔ یہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور اس کا بے حرف و آواز کلام کرنا سمجھ میں نہیں آتا جس طرح انسان سے تمام اعضاء جدا کردیے جائیں تو اسے انسان نہیں سمجھا جاتا ۔قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے(۱۰) ............................................................................................. اور ابوبکر باقلانی کہتے ہیں : ’’ ان صفات کا انکار کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ کیا اللہ تعالیٰ زندہ ہے تو وہ جواب ہاں میں دے گا پھر ا س کو کہا جائے گا کہ جب زندگی ہے تو سمع و بصر کیوں نہیں۔۔۔یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔[1] (۱۰)اللہ تعالیٰ کی صفت کلام ثابت ہے اور قرآن مجید کلام اللہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا ﴾ ۔(النساء:۱۶۴) ’’اور اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے بات کی ۔‘‘ وائل بن داود نے کہا : ’’ یہ گفتگو بالمشافہ کئی بار ہوئی تھی ۔‘‘[2] قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کا موسی علیہ السلام سے بات کرنے کا ذکر ہے ۔
[1] تمھید الاوائل فی تلخیص الدلائل (ص:۴۶)نیز دیکھئے شرح السنۃ للبربھاری (ص:۷۷۔۸۵) ،عقیدہ واسطیہ (ص:۳۴،اصل السنہ واعتقاد الدین (ص:۸۵)،الابانہ (ص:۱۶۴)،اور شیخ نواب صدیق حسن خان نے شیخ فاخر کی اس عبارت کا عربی میں ترجمہ کرکے نقل کیا ہے الانتقاد الرجیح فی شرح الاعتقاد الصحیح لنواب صدیق حسن خان (ص:۴۵۔۴۶) [2] السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل (ص:۵۳۰)