کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 38
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے اسی کے ساتھ موصوف سمجھیں ۔اور جس چیز سے اس نے اپنے آپ کو پاک کہا ہے ہم اس کو اس سے پاک و منزہ ہی خیال کریں ۔ اس نے اپنے لئییجو صفات ثابت کی ہیں وہ ثابت ہیں اور جن کی نفی کی ہے ان کو ہرگز اس کی طرف منسوب نہ کریں ۔ غرض اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات
............................................................................................
’’ میں نے اوزاعی ،مالک ،سفیان ثوری اور لیث بن سعد سے صفات باری تعالیٰ کے متعلق سوال کیاتو انھوں نے کہا :ہم انھیں اسی طرح جاری رکھیں گے جس طرح وارد ہوئی ہیں ۔[1]
ایک آدمی نے امام مالک سے﴿ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى﴾ (طہ:۵) کے متعلق سوال کیا ؟اس کے جواب میں امام مالک نے کہا کہ کیفیت کا ہمیں علم نہیں اور استوا معلوم ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کی کیفیت کے بارے سوال کرنا بدعت ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں تو گمراہ نہ ہو پھر آپ نے حکم دیا کہ اس آدمی کو مجلس سے نکال دیا جائے۔[2]
امام ابن خزیمہ اللہ تعالیٰ کی صفت سمع و بصر کے بارے لکھتے ہیں :
’’ سمع اور رویت کا اثبات ہم ویسے ہی کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں سمع و بصر ثابت کیا ہے اورجس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سمیع بصیر نہیں ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سمیع وبصیر ہونے کا انکار کررہاہے گویا وہ اس ذات کی عبادت کررہاہے جو سمیع و بصیر خالق کے علاوہ ہے۔‘‘[3]
[1] الصفات للدارقطنی:(۶۷)
[2] الرد علی الجہمیۃ للدارمی: (۱۰۴)
[3] التوحید لابن خزیمہ:ج۱ص۱۰۶) تفصیل کے لیے دیکھیے:الاحتجاج بالآثار السلفیۃ علی اثبات الصفات الالھیۃ والرد علی المفوضۃ والمشبھۃ والجھمیۃ للشیخ عادل آل حمدان (ص ۷۷۔۹۹)