کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 35
مگر یہی چیز اس زمانے میں بہت مشکل ہے۔ اس لیے کہ اہل دنیا کی عقلیں علوم فلاسفہ اور آراء متکلمین میں اس قدر منہمک ہیں کہ کوئی شخص بھی کتاب عزیز اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سر اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے(۲) بلکہ ان ہر دو روشن ترین حجتوں کو بے کار سمجھ رکھا ہے ،الٹا قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے والوں کو سنت سے بے گانہ خیال کیا جاتا ہے (۳)
واِلی اللّٰہ المشتکی ، ثم اِلی اللّٰہ المشتکی۔
.....................................................................................................
یحیی بن ابی کثیر (۱۲۹ ھ)نے کہا :
’’ سنت قرآن پر قاضی ہے یعنی سنت قرآن کریم کی مجمل چیزوں کی وضاحت کرتی ہے۔‘‘[1]
(۲)امام ا لبربہاری کہتے ہیں :
’’ جان لواللہ تم پر رحم کرے کہ دین اللہ کی جانب سے ہے۔یہ لوگوں کی عقل اور آراء پر قائم نہیں کیا۔ گیااس کا علم اللہ اور اس کے رسول کے پاس ہے۔ تم ذرا بھی اپنی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ تم دین سے دور جا گرو گے اور اسلام سے نکل جاؤ گے ۔پھر تمہارے لئے کوئی حجت نہیں ہوگی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کو بیان کر دیا اور صحابہ نے اس پر عمل کرکے دکھا دیا ۔‘‘[2]
(۳)امام ابن ابی حاتم نے کہا :اہل بدعت نے اہل سنت کے مختلف نام رکھے ہیں ، جیسے کہ زنادقہ اہل سنت کو حسویہ کہتے ہیں ، جہمیہ انھیں مشبہہ ، قدریہ انھیں مجبرہ اور مرجئہ انھیں مخالفہ کہتے ہیں ۔[3]
[1] سنن الدارمی :(۱/۱۴۴،الشرح والابانہ (ص۱۲۸)
[2] شرح السنۃ ((ص:۵)
[3] اصل السنہ واعتقاد الدین( رقم:۴۱۔۴۴)