کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 23
کہا جاتا تھا کہ حق گوئی و بے باقی میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا عمر کا ایک بڑا حصہ آپ نے اتباع سنت اور حدیث کی دعوت و ترویج میں گزارا تھا ۔آپ رحمہ اللہ اپنے رسالہ ((نورالعینین فی اثبات رفع الیدین)) میں ایک مقام پر فرماتے ہیں جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر لی تو مجھے امام ابوحنیفہ ،امام سفیان الثوری اور امام الزہری کے اقوال کی قطعا کوئی پرواہ نہیں ہے ۔[1] آپ کی وصیت : آپ قرآن وحدیث پرسختی سے کاربند تھے اس لیے قبر پرستی سے سخت نفرت رکھتے تھے ۔آپ نے وفات سے پہلے وصیت کی کہ مجھے شیخ عبدالطیف قدس سرہ کے پڑوس میں دفنایا جائے۔ وجہ یہ بیان کی کہ مشائخ برھان پور میں وہ بڑے پابند شرع بزرگ گزرے ہیں اور صرف ان ہی کی قبر پرگورپرستی وغیرہ بد رسمیں عمل میں نہیں لائی جاتیں لہٰذا یہی جگہ مجھے مرغوب ہے ۔چنانچہ ان کی وصیت کے مطابق شیخ عبدالطیف رحمہ اللہ کے پہلو میں انھیں دفن کیا گیا ۔ مقام و مرتبہ: امام فاخر مجتہد تھے ،ان کی کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل حدیث تھے کسی کے مقلد نہیں تھے اور خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ بلا مبالغہ مجتہد تھے ۔جیسے مولانا عبدالحئی الحسنی نے کے قول سے آگے آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیخ فاخر رحمہ اللہ کو بہت بلند مقام و مرتبہ سے نوازا تھا۔ امام نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ((رسالہ نجاتیہ للشیخ الفاضل المحدث محمد فاخر
[1] تراجم علماء حدیث( (ص:۱۰،تذکرہ علماء مبارکپور((ص:۹۵)