کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 21
حرمین شریفین میں قیام : امام فاخر رحمہ اللہ کو حرمین شریفین سے ایک خاص محبت تھی اسی کے نتیجے میں دینی علوم میں پختگی کی غرض سے آپ کئی سال وہاں ٹھہرے ۔اس دوران میں آپ نے دو حج کئے، پھر جب ہندوستان واپس پہنچے تو۱۱۵۴ھ میں تیسرے حج کے لیے دوبارہ سفرکیا سورت کے قریب مرہٹوں نے پکڑ لیا ،کتابوں کے سوا تمام سامان لوٹ لیا، پھر انھوں نے شیخ کا اس قدر احترام کیا کہ اپنی سواری دے کر انہیں شہر سورت پہنچا دیا ۔پھر شیخ ۱۱۵۶ھ میں یہیں سے حرمین کی طرف روانہ ہوئے ،یہ جہاز بھی تباہ ہوگیا لیکن شیخ فاخر بندر فحا میں چند روز قیام فرما کر اسی سال خیریت سے حجازپہنچ گئے اور ۱۱۵۹ھ میں وطن واپس آ گئے۔اور اپنے ساتھ صحیح مسلم کا ایک نسخہ لائے ، جس کی کاپی مولانا روح الامین خان (۱۱۵۱ھ )نے کی اور یہ ابھی تک حبیب گنج کی لائبریری میں محفوظ ہے ۔[1] تلامذہ: مروجہ علم کو حاصل کرنے کے بعد آپ مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے اور طلبہ کو دینی علوم بڑی محنت سے پڑھاتے رہے ۔ شیخ فاخر رحمہ اللہ نوجوانی کے ایام میں ہی محدث معروف تھے اورکتنی خلق خدا ان سے فائدہ اٹھاتی تھی ، اس کا اندا زہ اس بات سے لگا یا جاسکتاہے کہ مرزا مظہر جان جاناں نے شیخ ثناء اللہ پانی پتی کو پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا تھا اس کے بعد مرزا مظہر نے انھیں شیخ محمد فاخر کے پاس حدیث اور علوم حدیث پڑھنے کے لئے بھیجا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محمد فاخر اپنے دور کے ممتاز عالم دین اور عظیم محدث تھے۔ انھیں حدیث اور علوم حدیث پر مکمل عبور
[1] معارف: (۲۳/۹۱۔۹۲)