کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 13
عقیدہ توحید کے مسائل کو سمجھنا نہایت ضروری ہے ورنہ انسان شرک کی دلدل میں پھنس جائے گا اور دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھے گاکیوں کہ توحید ہے تو سب کچھ ہے توحید نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ اسلام میں عقیدہ ہی وہ معیار ہے جس سے کسی کا ایمان تولہ جا سکتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے یا غلط۔اسی لیے اہل علم نے عقیدہ پر بہت اہمیت دی ہے ۔اس کی توضیح کرنا ، اس کی شرح کرنا ،اس کی طرف دعوت دینا اور اس کا دفاع کرنا اہل علم پر فرض ہے۔سلف سے خلف تک عقیدہ کے موضوع پر بہت سی کتب لکھی جا چکی ہیں جن میں سے اکثر کا ذکر ہماری اس شرح رسالہ نجاتیہ میں ہے ۔ رسالہ نجاتیہ اور اس کے مصنف کو دو طرح کی خصوصیات حاصل ہیں : ۱: یہ خالص عقیدہ کی کتاب ہے جو سلف کے منہج پرفارسی میں لکھی گئی تھی۔ ۲: دوسری بات یہ کہ اکثر جاہل اور متعصب مقلد کی زبانوں سے سنا جاتا ہے کہ اہل حدیث او رسلفی ایک سو سال پرانی ایک جدید فکر ہے جوکہ ملکہ وکٹوریہ کی وجہ سے سامنے آئی ہے ۔شیخ فاخر الٰہ آبادی جن کے اس رسالے سے سوج کی طرح روشن ہو گیا ہے کہ سلفی و اہل حدیث فکر ،منہج و مذہب بارہویں صدی میں معروف اور وجود میں تھا یعنی آج سے ۲۷۵ سال قبل،حقیت میں سلفی فکر کی ابتداء وحی الہی کے شروع ہونے سے ہی ہو چکی تھی کیونکہ اس فکر کا منہج وحی الہی (قرآن و حدیث) ہے ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ شیخ فاخر نہ تو کسی مذہب کے پابند تھے اور نہ ہی کسی امام کے مقلد تھے بلکہ خالص کتاب و سنت پر گامزن تھے ۔بلکہ شیخ فاخرکے دور میں آج کے برصغیر کے مشہور ومعروف فرقوں کا نام ونشان تو کیا وجود بھی نہیں تھا۔ الزام ان پر لگایا تو قصور اپنا نکل آیا۔