کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 118
اور کوئی قرینہ موجود نہیں ہوتا تو اس سے یہی تقوٰی مراد ہوتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہر چیز سے بچائے جس سے وہ سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔
خواہ وہ چیز قول ہو یا فعل یا ترک ۔ اس تقوے میں کبائر سے اجتناب کرنا لازم ہوا اور صغائر میں قدرے اختلاف ہے۔(۱۱۴)
یہ تقویٰ تب ہی حاصل ہوتا ہے جب منکرات اور امور منہیہ سے اجتناب کرے اور معروفات اور امور مامورہ کو بجا لائے۔ ان منکرات اور معروفات کا ہر ایک عضو سے تعلق ہے۔ لہٰذا طالبِ نجات کو چاہیے کہ وہ ان چیزوں کی طرف آنکھ نہ اٹھائے جن کی طرف دیکھنا منع ہے، ایسی چیز پر کا ن نہ لگائے جس کا سننا حرام ہے ، وہ نہ پکڑے جس کا پکڑنا گناہ ہے، وہ نہ کھائے جس کی اجازت نہیں ہے، وہ نہ پیئے جس کا پینا ناجائز ہے، بے فائدہ اور بے ہودہ بات منہ سے نہ نکالے، وہ راستہ نہ چلے جس سے منع کیا گیاہے، وہ نہ پہنے جس کا پہننا حرام ہے ۔ ایسے ہی وہ حرام سجدے سے بچے اور اپنی شرمگاہ کو محرمات میں استعمال نہ کرے۔ وعلی ھذا القیاس۔
اصلاح ِ قلب اور اس کی اہمیت:
منکرات میں سے اعظم اور بڑا منکر انسان کا دل ہے(۱۱۵) کیونکہ اس کے
................................................................................................
شکریہ ادا کیا جائے ناشکری نہ کی جائے۔[1]
(۱۱۴)علامہ آلوسی نے تقویٰ کے مراتب بنائے ہیں مثلا۱:شرک سے اجتناب ۲:کبیرہ گناہوں سے کنارہ کشی (۳)صغیرہ گناہوں کو ترک کردینا۔[2]
(۱۱۵)دل پر گناہوں کا نقصان اس طرح ہے جس طرح زہر کا نقصان جسم پر ہے اور دنیا
[1] المعجم الکبیر للطبرانی: (۹ /۲۹ ح:۸۵۰۲،مستدرک حاکم: (۲/۲۹۴،نیز دیکھیں الجامع لاحکام القرآن للقرطبی : (۴/۱۶۶)
[2] تفسیر روح المعانی : (۱/۱۰۸)