کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 117
عام معنی اس چیز سے اجتناب کرناجو آخرت میں مضر ہو، یہ صورت زیادت اور نقصان کو قبول کرتی ہے، اس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ جو چیز سالک کو حق باری تعالیٰ سے باز رکھنے اور منقطع الی اللہ ہونے سے مانع ہو اس سے گریز کرے، اسے حقیقی تقویٰ کہتے ہیں ، چنانچہ آیت کریمہ: ﴿اِتَّقْوا اللّٰہِ حَقَّ تُقٰتِہ﴾ (آل عمران: ۱۰۲) ’’اللہ سے ڈرو جیسے کہ اس سے ڈڑنے کا حق ہے ۔‘‘ سے یہی تقوٰی مراد ہے(۱۱۲) اور دوسرا تقوٰی شرع میں مشہور ہے (۱۱۳)جب تقوے کا اطلاق کیا جاتا ہے ............................................................................................ امام فخر الدین رازی نے تقوٰی کی تعریف بڑی تفصیل سے کی ہے ۔[1] امام راغب اصفھانی نے کہا :عرف شرعی میں اپنے نفس کو گناہ میں واقع کرنے والے امور سے بچانے کا نام تقوٰی ہے ۔[2] (۱۱۲)علامہ آلوسی بغدادی کہتے ہیں : ’’شریعت کے مطابق اپنے آپ کو آخرت سے نقصان دہ چیزوں سے بچانے والے کو متقی کہتے ہیں۔‘‘ [3] امام ابن عطیہ اندلسی متقین کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’ متقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو احکام الٰہی بجا لاتے ہیں اور اس کی نافرمانیوں سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں تو یہ تقوٰی اللہ تعالیٰ کے درمیان اور ان کے گناہ کے درمیان ڈھال بن جاتا ہے ۔‘‘[4] (۱۱۳)جلیل القدر صحابی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تقوٰی یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کو یاد کیا جائے اسے بھلایا نہ جائے اور اس کا
[1] دیکھئے:التفسیر الکبیر للرازی: (۲/۲)۔ [2] مفردات القرآن: (ص۵۵۲) [3] تفسیر روح المعانی : (۱/۱۵۸) [4] المحرر الوجیزالمعروف تفسیر ابن عطیہ : (۱/۱۴۴)