کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 116
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ .................................................................................................................. ’’میں فلاں چیز سے بچ کر رہا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ ﴾ (المدثر:۵۶) ’’وہی اس لاسق ہے کہ اس سے ڈراجائے اور لائق ہے کہ بخش دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس کا مستحق ہے کہ اس کے عذاب سے بچا جائے اور اس کی ذات اس لائق ہے کہ ایسا عمل کیا جائے جو اس کی بخشش تک پہنچانے کا سبب ہو ۔ [1] علامہ ابوالحسن علی بن اسماعیل النحوی (ت:۴۵۸)نے کہا : ’’تقوی اصل میں دو چیزوں کے درمیان پردہ کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘ اور علامہ اصمعی نے کہا : ’’بغض و عداوت اور کینہ پروری سے صاف دل والے انسان کو متقی کہتے ہیں ۔‘‘[2] امام فخر الدین رازی نے متقی کی تعریف یوں کی ہے : ’’متقی لغت میں اسم فاعل کا صیغہ ہے جو انتہائی حفاظت کرنے والے پر بولا جاتا ہے۔‘‘[3] امام راغب اصفھانی نے کہا : ’’ خوف زدہ چیز سے اپنے آپ کو بچانے کو تقوی کہتے ہیں ۔‘‘[4] تقوٰی کی اصطلاحی تعریف : بندہ اپنے اور جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس کے درمیان بچاؤ کا ایک ذریعہ بنا ئے جو اسے اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھے اور وہ اللہ کے احکام کی بجاآوری کرے اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے ۔[5]
[1] لسان العرب : (۱۵/۴۰۲)،القاموس المحیط: (۱۷۳۱) [2] المخصص : (۱۳/۹۳۔۹۴) [3] التفسیر الکبیر للرازی: (۲/۲۰) [4] مفردات القرآن :(۵۵۲) [5] جامع العلوم والحکم : (۱/۳۴۸،جامع البیان عن تاویل القرآن (۲/۱۸۱)