کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 115
آدمی کو تقوے کی ظاہری صورت دکھا کر تقوے کے معنی سے عاری کردیتا ہے جس طرح کہ اکثر اہل دعوی کے حالات سے ظاہر ہے، لہٰذا مکائدِ نفس سے بھی پرہیز کرنا ضروری اور لازم ہے۔
تقوے کا معنی و مفہوم:
تقوے کے معنی کو خوب پہچان لینا چاہیے ، تاکہ اس کا استعمال آسان ہو جائے۔ لغوی لحاظ سے تقوی پرہیز گاری کو کہتے ہیں ، جبکہ شریعت میں اس کے ایک عام معنی ہیں اور ایک خاص(۱۱۱)۔
.........................................................................................
اللہ عزوجل کے سیدھے راستے پر گامزن ہے اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے جس نے اس کی مخالفت کی خواہ قول میں یا عمل میں تو وہ بدعتی اور شیطان کا راستہ اپنانے والاہے اور ان کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت، مغفرت اور احسان کا وعدہ فرمایا ہے ۔[1]
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہوئے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے اس طرح کہا: اے میرے رب !تیری بزرگی کی قسم میں مسلسل تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی ۔تو اللہ تعالیٰ نے کہا: مجھے میری بزرگی اور عظمت کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں انھیں معاف کرتا رہوں گا۔[2]
(۱۱۱)تقوی کی لغوی تعریف:عربی زبان میں تقوٰی کے معنی بچنے ،ڈرنے اور متنبہ رہنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے:
اتقیت الشیء و تقیتہ ،اتقیہ تقی و تقیۃوتقاء
[1] ذم الوسواس لابن قدامہ (ص:۴۶۔۴۸)
[2] مستدرک حاکم: (۴/۲۶۱،شیخ البانی نے اس کو صحیح کہاہے۔صحیح الجامع: (۱۶۵۰)