کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 114
اس کے لیے اجر عظیم، صلاحِ عمل ، فلاح حال اور شکر کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تقوے میں ایک دوسرے کے معاون رہیں۔ جو شخص اس تقوے کا حکم دیتا ہے اس کی مدح کی ہے اور سارے اولین و آخرین کو اسی تقوے کی وصیت کی ہے ۔ اگر طالب نجات اور سالک سبیل آخرت طلبِ سکون کے دعوے میں سچا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عاشق تقوی رہے اور ایسے اندازمیں اس کا شیفتہ و فریفتہ ہو کہ پھر کوئی چیز اسے تقوے سے نہ روک سکے ، اگرچہ سارے جن وانس اس کے خلاف جمع ہو جائیں ۔
شیطان کی عداوت:
شیطان انسان کا ایک قوی دشمن ہے، اس کی فریب کاریوں سے کتاب و سنت کے توسل کے بغیر امن حاصل نہیں ہوسکتا ہے(۱۰۹)
نفس امارہ شیطان کا خادم ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اسے کھینچ لیتا ہے (۱۱۰)
...........................................................................................
(۱۰۹ )اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ﴾ (فاطر:۵)
’’بےشک شیطان تمہارا دشمن سو تم اسے دشمن سمجھو۔‘‘
نیز دیکھئے (البقرہ:۱۰۹،۱۶۸،الکھف :۵۰)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ نے ایک خط کھینچا ایک خط اس کے دائیں طرف اور ایک اس کے بائیں طرف کھینچا اور فرمایا: یہ شیطان کے رستے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ درمیانی لکیر پر رکھا اور یہ آیت تلاوت کی:﴿ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي....﴾ [1]
(۱۱۰)جس شخص نے اپنے قول و عمل کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تووہی
[1] السنۃ لابن ابی عاصم (ح:۱۶ ،شیخ البانی نے اس کو صحیح کہا ہے، ظلال الجنۃ (ص:۱۲)