کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 113
زیادہ ہیں اور چالیس سے زیادہ آیات میں تقوے کا حکم دیا گیا ہے(۱۰۷)
خصائل ِ خیر میں ذکر و ثنا کے اعتبار سے کوئی چیز تقوے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی تقوے کے بارے میں تفصیل خیر بیان ہوئی ہے۔(۱۰۸)
﴿اِنَّ اکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾ (الحجرات: ۱۳)
جو شخص متقی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا محب ولی اور مزکی و ناصر رہتاہے، اس کے لیے حسن عاقبت اور حسن ماب مہیا ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا مقرب ہے، اس کے حق میں جنت کا و عدہ ہے، یہ تقوٰی اس کا زادولباس ہے۔
ثواب، دفع کید، امداد، مغفرت، رحمت ، گناہوں کے کفارے اور حصول برکات کی شرط اور سبب ہے اور حق باطل کے درمیان ایک تفرقہ اور فرق ہے، تنگی معاش سے خروج اور رزق کا اس جگہ سے ملناہے جہاں سے گمان بھی نہ ہواور یہ
..............................................................................................
(۱۰۷)ان آیات میں سے چند یہ ہیں (النساء:۱۳۱،البقرہ:۲۱،آل عمران:۱۰۲،المومنون:۵۱۔۵۲،الاحزاب:۱،۵۵)
(۱۰۸) سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم جہاں کہیں بھی ہو تقوٰی اختیار کرو ،برائی کے بعد نیکی کرو،نیکی برائی کو مٹا دے گی اور لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔[1]
سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع کے خطبہ دیتے وقت سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے :’’ اپنے رب کاتقوی اختیار کرو، پانچ نمازیں ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی زکاۃ دو اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔[2]
[1] سنن الترمذی :(۲۰۵۳)،امام ترمذی نے اس کو حسن صحیح اور شیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے )
[2] سنن الترمذی: (۶۶۶،الصحیحہ: (۸۶۷)