کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 107
سب لوگوں فصیح اللسان تھے ۔یہ جرات ایک ایسی قوم نے کی ہے کہ بچہ ان میں جوان ہو،جوابن بوڑھا ہو گیا ،اور عادت جو طبیعت ثانی ہوتی ہے اس سے مل گئی ،مگر وہ اندھوں اور بہروں کی طرح اس طرح یقین کر بیٹھے اور اپنے ایمان کو ضایع کر دیا ۔(۱۰۰) ................................................................................... (۱۰۰)امام اوزاعی نے کہا کہ میں نے امام زہری سے آیات صفات کے بارے میں سوال کیا توانھوں نے کہا کہ ان کو اسی طرح رہنے دو۔[1] ابو لبید بن مسلم نے کہا کہ میں نے مالک ،اوزاعی ،لیث اور سفیان ثوری سے صفات باری تعالیٰ کے متعلق وارد آیات کے متعلق پوچھا ۔ان سب نے کہا کہ ان کو ویسے ہی رہنے دو جیسے وارد ہوئی ہیں ان کی کیفیت نہ پوچھو۔[2] امام احمد نے کہا کہ ان احادیث صفات کو اسی طرح رہنے دینا چاہیے جس طرح وارد ہوئی ہیں ۔ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں ان کو کسی کے مشابہ قرارنہیں دیتے ۔ اس پر علما کا اتفاق ہے ۔[3] امام ترمذی نے کہا کہ ایک سے زیادہ اہل علم کی رائے ہے کہ احادیث صفات کو اسی طرح جاری رکھیں گے، کسی کے ساتھ تشبیہ نہیں دیں گے اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں ،اہل علم ان کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں انھیں تسلیم کرتے ہیں کسی وہم کا شکار نہیں ہوتے اور نہ کسی کی کیفیت کا سوال کرتے ہیں ،امام مالک ،سفیان بن عیینہ اورعبداللہ بن مبارک سے یہی منقول ہے کہ وہ صفات کو بلا کیفیت تسلیم کرتے ہیں اور اہل السنہ والجماعہ کا بھی یہی قول ہے ۔جہمیہ ان صفات کو تشبیہ قرار دے کر انکار کرتے ہیں ۔ اسحاق بن راھویہ کہتے ہیں کہ تشبیہ تو تب ہو
[1] شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ : (۳/۴۳۰،ذم التاویل لابن قدامہ المقدسی (ص:۱۸) [2] الشریعہ (ص:۱۳۴) [3] مناقب امام احمد (ص:۱۵۵۔۱۵۶)