کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 102
ہر مجتہد کی رائے درست نہیں ہوتی ہے ۔اس لیے کہ حق صرف ایک ہے اور ایک ہی چیز میں مجتہدین کی آراء مختلف ہوتی ہیں ،اہل سنت کے تمام مذاہب میں حق موجود ہے اور ہر مذہب کے بانی کو حق سے کوئی نہ کوئی حصہ ملا ہے مگر اہل حدیث کا مذہب دیگر تمام مذاہب سے زیادہ حق پر ثابت ہے ،کیونکہ تمام مذاہب کی حق باتیں اس میں جمع ہو گئی ہیں ۔مقلدکا ایمان صحیح ہے لیکن استدلال چھوڑنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ضرور ہے ۔
تقلید کا بیان
تقلید کا معنی دلیل معلوم کیے بغیر کسی کے قول پر عمل کرنا ہے ۔کسی روایت کو قبول کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کو تقلید نہیں کہتے ۔اہل علم کا اجماع ہے کہ اصول دین میں تقلیدکرنا منع ہے ،جمہور کے نزدیک کسی خاص مذہب کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے ،بلکہ اجتہاد واجب ہے ،اختلافات میں مقلدین کی بجائے مجتہدین کا قول ہی معتبر ہوتا ہے ،بقول ابن عبدالبر مقلدین بالاتفاق اہل علم کے دائرے سے خارج ہیں ۔ائمہ اربعہ نے اپنی اور غیر کی تقلید سے منع فرمایا ہے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کبھی تقلید کا لفظ نہیں سنا تھا ،اور سنتے بھی کیسے ،جب کہ تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی ہے ۔جس کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ثم یفشوا الکذب [پھر جھوٹ عام ہو جائے گا ]کا لقب عطافرمایاہے ۔صحابہ اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں ایک عامی آدمی اپنے پیش آمدہ مسئلے میں کسی بھی عالم سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دریافت کرتا تھا اور عالم
....................................................................................
’’جب قاضی کوئی فیصلہ کرتا ہے اور وہ درستی کو پہنچتا ہے تو ا س کے لیے دوہرا اجر ہے اور جب وہ غلطی کرتا ہے تو اس کو ایک اجر ملے گا ۔[1]
[1] صحیح بخاری: (۷۵۳۲،صحیح مسلم: (۱۷۱۶)