کتاب: رسالہ نجاتیہ در عقائد حدیثیہ - صفحہ 101
مسائل اجتہاد مجتہد کبھی خطاء کرتا ہے پھر بھی ایک اجر پاتا ہے اور کبھی ثواب کو پہنچتا ہے اوروہ اجر پاتا ہے(۹۵) ...................................................................................... خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا﴾(یسین:۷۱)اور اس کا کہنا ﴿ خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾ (ص:۷۵)اور وہ کہے کہ یہ مجازہے تواس سے کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا حقیقی اور ظاہر معنی لیا جائے گا، بغیر دلیل کے ان کے ظاہری معنی کو مجاز کی طرف نہیں پھیرا جائے گا ۔[1] امام خطابی صفات کے بارے میں سلف کا موقف بیان کرتے ہیں کہ انھیں ظاہر پر محمول کیا جائے گا، تشبیہ کی نفی کی جائے گی اور تکییف کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔[2] امام صابونی نے بھی یہی کہا ہے۔[3] قاضی ابویعلی نے کہا کہ تاویل کے بطلان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ صحابہ ،تابعین وغیرہ نے ان کو ظاہر پر محمول کیا ہے اور تاویل نہیں کی اور نہ وہ اصل معنی سے ہٹے ہی ہیں اور اگر تاویل جائز ہوتی تو وہ اس میں سبقت کرتے ۔[4] اما م ابن عبدالبر ،ابن قدامہ ،ابن تیمیہ ،جوینی ،ابن قیم اور بہت سے ائمہ نے صفات کی تاویل نہیں کی بلکہ صفات کو اصلی معنی ہی پر رکھا ہے ۔[5] (۹۵)اس کی دلیل حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] الابانہ (ص:۱۳۳) [2] الغنیہ عن الکلام و اہلہ ماخوذ العلو(رقم:۱۳۷) [3] عقیدۃ السلف و اصحاب الحدیث (رقم:۳) [4] ابطال التاویل لاخبار الصفات قلمی (ص:۲۱) [5] التمھید:(۷/۱۴۵)،ذم التاویل(ص:۱۱،رسالہ اثبات استوی والفوقیۃ (ص:۱۷۶۔۱۸۳)،تحفۃ الاخوان فی صفات الرحمن (ص:۳۶۔۳۸)،مختصر الصواعق المرسلہ (ص:۳۷)،الکلام علی الصفات (ص:۱۹۔۲۰)