کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 92
کو لوگوں کی نظروں میں حقیر بنا دیا ہے۔ آپ اپنی دعوت کے ذریعے سے اگر مال حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کے لیے مال کے ڈھیر لگا دیتے ہیں، اگر آپ کا مقصد بادشاہ بننا ہے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی یہ دعوت اپنی مرضی سے شروع نہیں کی تھی کہ مخالفین کے کہنے پر دعوت کا یہ سلسلہ ترک کر دیتے بلکہ یہ دعوت تو اللہ بزرگ و برتر کے حکم سے شروع کی تھی۔ اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اللہ کا حکم بندوں کے کہنے پر چھوڑ دیا جاتا؟ قریش کے مکر و فریب اور لالچ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزیمت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی پیش کش مسترد کر دی۔ قریش پر یہ عزیمت و استقلال بہت گراں گزرا۔ اب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعوتِ حق سے روکنے کے لیے آپ کے چچا ابو طالب کی مدد حاصل کرنا چاہی۔ وہ سب مل کر جناب ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے: ابوطالب! آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے، ہمارے دین پر عیب لگاتا ہے، ہمیں بے و قوف گردانتا ہے اور ہمارے آباء و اجداد کو گمراہ کہتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے نظریات و خیالات ایک جیسے ہیں۔ آپ خود اسے روک لیں یا آپ ہمارے بیچ سے ہٹ جائیں، ہم خود اس سے نمٹ لیں گے۔ جناب ابو طالب نے ان کے ساتھ بڑی نرمی سے بات کی اور نہایت شائستہ جواب دیا جسے سن کر وہ سب چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے اور اس عظیم مقصد کی خاطر مختلف قبائل کے پاس جاتے رہے، تاکہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کر لیں اور دین کی روشنی پھیلتی چلی جائے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجاج کے قافلوں سے بھی ملتے