کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 91
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر ابو طالب نے کہا: بھتیجے! میں اپنے باپ دادا کا دین اور ان کا راستہ نہیں چھوڑ سکتا۔ لیکن اللہ کی قسم! میرے جیتے جی تمھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچ پائے گی۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اب مکہ میں پھیلنے لگی تھی۔ غلام اور کمزور طبقہ کے افراد کی زبانوں پر قرآن کی آیات کا ورد ہونے لگا تھا۔ لوگ ابن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر پر توحید کی دعوت سننے کے لیے آنے جانے لگے اور دور جاہلیت کے باطل نظریات و عقائد سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے تھے۔
ادھر قریش کے سرغنوں اور سرداروں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب زمین ان کے پیروں تلے سے سرکنے لگی ہے اور ان کی سرداری ڈگمگانے لگی ہے۔ کیونکہ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
قریش کو فکر لاحق ہونے لگی کہ اس دین کے سامنے بند کیسے باندھا جائے؟ کیا وہ انتظار کریں کہ سارے عرب کو اس نئی دعوت کا علم ہو جائے اور وہی ان کے مقابل کھڑے ہو جائیں۔ اس طرح انھیں بہت نقصان ہو گا اور ان کا مقام و مرتبہ بھی گِر جائے گا؟ نہیں! اہل مکہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔
قریش نے چند لوگ تیار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ اپنی اس دعوت سے باز آ جائیں۔ اس دعوت نے قریش اور اہل مکہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ ان کے غلام جو معاشرے کا کمزور ترین حصہ ہیں، وہی اپنے آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اور اس دعوت نے ان کے عقائد و نظریات
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍247۔