کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 90
ابو طالب بہت پریشان ہوئے، ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ قاصد نے آکر ابوطالب کو اطلاع دی کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمھیں اپنے گھر بلا رہے ہیں۔ ابوطالب اطلاع پاتے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں بنو ہاشم پہلے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر جمع ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، انھیں قرآن کی بعض آیات کی تلاوت سنا رہے ہیں اور انھیں بتا رہے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے اہل اور قرابت داروں کو اللہ کی توحید کی دعوت دوں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾
’’اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔‘‘ [1]
ابو طالب نے پوچھا: بھتیجے! یہ تو بتاؤ کہ تم کس دین کی دعوت دے رہے ہو؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چچا جان! یہ اللہ تعالیٰ کا دین ہے، اس کے فرشتوں کا دین ہے، اس کے رسولوں کا دین ہے اور ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔‘‘
آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((بَعَثَنِيَ اللّٰہُ بِہٖ رَسُولًا إِلَی الْعِبَادِ))
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے بندوں کی طرف قاصد بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
’’چچا جان! آپ میری طرف سے بھلائی اور خیر خواہی کے سب سے زیادہ حق دار ہیں، مجھ پر لازم ہے کہ میں ہدایت کی طرف آپ کی رہنمائی کروں، نیز آپ اس بات کا بھی زیادہ حق رکھتے ہیں کہ آپ میری دعوت قبول کریں اور اس مشن میں میری مدد کریں۔‘‘
[1] الشعراء 26 :214۔