کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 89
والا شہر ہے۔
ابو طالب نے اپنے یتیم بھتیجے کی عمدہ پرورش میں ذرا بھی کمی نہیں چھوڑی۔ آپ ان کی مکمل نگہبانی اور حفاظت کرتے رہے حتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پختہ عمر کو پہنچ گئے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانی کی عمر میں قدم رکھا تو آپ نے محسوس کیا کہ چچا کی مالی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کا بوجھ کم کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کام کرنے لگے اور اپنے چچا کی مالی مدد فرمانے لگے۔ پہلے پہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائیں، پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے تجارت کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چچا کے ساتھ محض تعاون پر اکتفا نہ کیا بلکہ ابو طالب کے ایک بچے کی پرورش بھی اپنے ذمہ لے لی، نیز اپنے مالدار چچاؤں کو بھی اس بات کی رغبت دلائی کہ وہ اپنے بھائی ابو طالب کا بوجھ آپس میں بانٹ لیں۔
ابو طالب اپنے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لمحے کے لیے بھی جدا نہیں رہتے تھے حتی کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے زیادہ دیر دور نہیں رہنے دیتے تھے۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا، جب ابو طالب نے محسوس کیا کہ وہ گھڑیاں جو اپنے بھتیجے کے ساتھ اکٹھی کٹنی چاہیے تھیں وہ بہت کم ہوتی جا رہی ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دوری بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک دن ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مکہ میں پوچھ گچھ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ نہ چلا، مکہ کی گھاٹیوں میں بھی کہیں نہ پایا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں تلاش کیا تو بتایا گیا کہ دو یا تین دن ہو گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہیں۔